Thursday, June 24, 2010

GUMSHUDA BACHPAN / گم شدہ بچپن


ہمارا بچپن رہا ہو جیسا بھی
خوبصورت بہت تھا شاید
ہمارے چھوٹے سے شہر میں
کنکروں کی کچّی سڑک پہ کچھ لیمپ پوسٹ ہوتے تھے
جن کی مدّھم سی روشنی میں بھی
ہم کو دشواریوں کا احساس کچھ نہیں تھا
گھروں میں مٹّی کے چولھے تھے
جن کو صبح ہوتے ہی لیپ کرتازہ دم بنادیتی تھیں
سگھڑ عورتیں گھروں کی
کبھی ہمیں ناشتے میں ملتی تھی
روغنی میٹھی سرخ ٹکیا
کبھی تھی بیسن کی پیازآلود،ہلکی نمکین
کوئلے پر سکی ہوئی زرد زرد روٹی
ڈبو کے گھی کی کٹوریوں میں ہم اپنے لقمے
خوشی خوشی، بیٹھ کر وہیں چولھے سے ہی لگ کر
مزے سے کھاتے تھے۔
پڑھنے لکھنے کا شوق ایسا تھا
لالٹینوں میں یا چراغوں کی روشنی میں بھی
کوئی دقّت کبھی نہ آئی۔
سلگتی گرمی کی دوپہر میں
سناتی تھیں دادی جب کہانی
تو شاہزادوں کی زندگی کے کئی مسائل
ہمیں بھی الجھن میں ڈال دیتے تھے
اور پریوں کا تخت پر بیٹھ کر فلک سے زمیں پہ آنا
کچھ ایسا لگتا تھا
گد گدی سی دلوں میں ہوتی تھی
ہم بھی پریوں کے ساتھ خود کو

بلندیوں پر فلک کی محسوس کرنے لگتے تھے۔
لو بھری دوپہر کا احساس تک نہیں تھا۔
مگر اسی شہر میں گیا جب میں ایک مدّت پہ
شہر دفنایا جا چکا تھا۔
ہمارا بچپن بھی اس کے ہمراہ
گم شدہ تھا۔
کہیں بھی مدفن کا اس کے نام و نشاں نہیں تھا۔
************

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home