Friday, June 25, 2010

DIL THA MATAYE_GHAM KI TARAQQI SE BE_KHABAR /

دل تھا متاع غم کی ترقی سے بے خبر
آنکھیں تھیں زخم دل کی خرابی سے بے خبر

میں تار عنکبوت کے گھیروں میں آگیا
تاریکیوں میں لپٹی حویلی سے بے خبر

ویسے میں اپنی ذات سے بیزار تو نہیں
پھرتا ہوں کوچہ کوچہ مگر جی سے بے

اس کے جمالیات کی جہتیں نہ کھل سکیں
تار نگہ تھا شعلہ پرستی سے بے خبر

اس قید و بند عشق سے آزاد کون ہو
خود یہ سپردگی ہے رہائی سے بے خبر
*

Labels:

Thursday, June 24, 2010

KAALI CHIYUNTI / کالی چیونٹی


کالی چیونٹی
آپ زیدی صاھب ہیں ؟لوہے کا باہری دروازہ کھولتے ہوئے ایک چھوٹی سی بچی نے سوال کیا ۔
کیا آپ مجھے جانتی ہیں ؟ میں نے انتہائی اشتیاق کے ساتھ اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
لیجئے، آپ کو کیوں نہیں جانوں گی۔ ذرا دیر پہلے آپ ہی کا تو فون آیا تھا۔
ابھی میں کچھ اور کہتا کہ تسمینہ گرگ باہر آگئیں۔
’آئیے، اندر تشریف لائیے،آپ اسے نہیں جانتے، یہ کالی چینٹی ہے‘۔
ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھتے ہوئے میں نے کالی چینٹی کو ذرا غور سے دیکھا۔مشکل سے دو فٹ کا قد، چمکتا کالا رنگ، آٹھ نو برس سے زیادہ کی نیں رہی ہوگی۔زبان اتنی صاف اور آواز ایسی کھنک دار کہ بس سنتے رہئے۔میں تسمینہ سے ان کی خیریت پوچھنا بھول گیا اور تسمینہ بھی کالی چینٹی کے کارنامے سنانے میں کھو گئیں۔
کالی چینٹی کا اصل نام صبا تھا۔تین بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ ماں باپ پڑوس میں ہی ایک جھگّی نما ٹین شیڈ میں رہتے تھے۔تسمینہ کے گورے چٹّے، لحیم شحیم ڈیل ڈول کے سامنے وہ سچ مچ ایک چینٹی سی ہی لگتی تھی۔لیکن تسمینہ کا خیال تھا کہ لال چینٹی بہت زوروں سے کاٹتی ہے اور کالی چینٹی سے کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔تسمینہ نے اسی دلیل کی روشنی میں صبا کا نام کالی چینٹی رکھا تھا۔صبا بھی اپنے اس نام سے بہت خوش تھی۔پھر اس کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ گھر میں کوئی مہمان آجائے، تسمینہ کوہلنا بھی نہیں پڑتا تھا۔وہ ٹرے میں اچھا خاصا ناشتہ لگا کرسلیقے سے چائے یا کافی کے ساتھ مہمان کے سامنے سجا دیتی تھی۔یہ ٹریننگ غالباً تسمینہ نے ہی اسے دی تھی۔کالی چینٹی کا طور طریقہ دیکھ کر میری دلچسپی اس میں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔اس کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ میں اس سے پہلے ایسی کسی بچی سے نہیں ملا تھا۔دلی کا شاید ہی ایسا کوئی لائق ذکر قلمکار بچا ہو جسے وہ نہ جانتی ہو۔اتنا ہی نہیں وہ کس معیار کا افسانہ نگار ہے یا کس نوعیت کے ناول لکھتا ہے ،اس سلسلے میں بھی وہ اپنی بڑی نپی تلی رائے رکھتی تھی۔تسمینہ چونکہ خود ہندی کی ایک مشہور ناول نگار تھیں اس لئے ادیبوں کا ان کے گھر آنا جانا تو رہتا ہی تھا۔تسمینہ کا خیال تھا کہ لوگوں کی باتیں سن سن کر اس نے یہ سب کچھ سیکھ لیا ہے۔میں اس کی باتوں پر فریفتہ بھی تھا اور حیرت زدہ بھی۔ہندی افسانوں کے ایک مشہور ادبی جریدے کے مدیرسے شاید وہ بہت خوش نہیں تھی۔کہنے لگی۔
’زیدی صاحب ، آپ ہی بتائیے، اس رسالے کے بانی کے پیش نظر کچھ معیاری قدریں تھیں یا نہیں ؟ اور اپنے زمانے میں اس کی ایک خاص عزت تھی یا نہیں؟کچھ تو لحاظ رکھنا چاہئیے ایڈیٹر صاحب کو ان باتوں کا‘۔
میں بھلا اس کی تردید کیا کرتا۔بس ہاں میں ہاں ملا دی۔پھر کیا کہنا تھا۔ اس کا چہرا کھل اٹھا۔اس کے جامنی سیاہ رنگ پر اطمینان اور خوشی کا عکس صاف دیکھا جا سکتا تھا۔
اس دن تسمینہ کے گھر سے لوٹنے کے بعد میں رات کی گاڑی سے لکھنؤ کے لئے روانہ ہو گیا۔وہاں مصروفیات اس قدر بڑھ گئے کہ کالی چینٹی کا کوئی خیال بھی نہیں آیا۔ایک دن ٹائمس آف انڈیا میں نو دس برس کی ایک بچی کی تصویر پر نگاہیں ٹھہر گئیں جو کسی بڑے بزنس مین کی بیٹی تھی۔ اس کا تعارف ایک ماہر آرکی ٹکٹ کی حیثیت سے کرایا گیا تھااور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ بیرونی ممالک میں اسے کنسلٹنٹ کے طور پر اچھی خاصی شہرت اور عزت حاصل ہے۔مجھے اچانک کالی چینٹی کا خیال آگیا۔ وہ بھی اگر کسی ایسے ہی گھر میں پیدا ہوئی ہوتی تو شاید آج اس کی تصویر بھی شایع ہوتی۔
دس بارہ سال گزر گئے۔میں نوکری سے ریٹائر ہو کربنارس اپنے آبائی مکان میں رہنے چلا آیا۔مکان کی حالت خاصی خراب تھی۔ جہاں مرمت سے کام چل سکتا تھا،مرمت کرا دی۔باتھ روم اور کچن میں کام کچھ زیادہ بڑھ گیا۔بچوں کی ضد تھی اس لئے نئے طور طریقے کی چیزیں لگوانا پڑیں۔پیچھے کے لمبے چوڑے برامدے میں بیٹے نے بڑے سائز کا فلیٹ ٹی وی لا کر لگا دیا۔ لڑکیوں کی شادیاں چونکہ جون پور اور غازی پور میں ہوئی تھیں اس لئے لکھنؤ کے مقابلے میں انھیں بنارس آنے جانے میں زیادہ آسانی تھی۔نتیجے میں عید بقرعیداور محرم میں بچوں کے آجانے سے گھر بھرا بھرا سا رہتا تھا۔مجھے ٹی وی سیریلوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہاں کبھی کبھی بچوں کے اصرار پرکچھ دیر کے لئے بیٹھ ضرور جاتا تھا۔اس سال عید اور دیوالی کی چھٹیاں ایسی ہوئیں کہ بیٹا بہو اور بچوں کے ساتھ بنارس آگیا۔چھوٹی بیٹی بھی غازی پور سے آ گئی تھی۔پل پل نانا دادا کی آوازوں سے گھر گونج رہا تھا۔ مجھے ان آوازوں سے ایک حیرت انگیز قوت ملتی تھی۔فرمائشیں، شکایتیں،ذرا ذرا سی بات پر روٹھنا، قہقہے لگانا، عجب دلچسپ دنیا تھی بچوں کی جس میں گھل مل کر میں بھی بچے جیسا ہو گیا تھا۔
ایک دن میری چھوٹی نواسی طوبیٰ اچھلتی کودتی میرے پاس آئی۔ کہنے لگی۔’نانا! آج نو بجے اسٹار چینل پر ایک ٹیلی ڈرامہ آئے گا ’کابل کی خوشبو‘۔ آپ بھی دیکھئے گا۔‘
ایسی کیا بات ہے اس ڈرامے میں جو آپ مجھ سے دیکھنے کو کہہ رہی ہیں؟
خاص بات ہے۔جبھی تو کہہ رہی ہوں۔
اچھا ! ذرا میں بھی کچھ سنوں۔
اس میں شہنشاہ بابر ہے۔بڑے بڑے ہاتھی ہیں۔اور گھوڑے ایسے شاندار ہیں کہ بس دیکھتے رہئے۔میں نے اس کا ٹریلر دیکھا ہے۔
پھر تو میں ضرور دیکھوں گا۔
اور نانا۔ اس میں توپیں بھی ہیں اور زبردست لڑائی بھی ہے۔
گڈ۔ مزا آ جائے گا یہ سب دیکھ کر۔
میں نے طوبیٰ کو پیار سے لپٹا لیا۔لیکن دوسرے ہی پل وہ خود کو چھڑا کر الگ کھڑی ہو گئی۔’نانا آپ نے شیو نہیں کیا ہے۔ آپ کی داڑھی چبھتی ہے۔‘
میں نے اپنی داڑھی چھو کر دیکھی۔واقعی بڑھی ہوئی تھی۔ میں کچھ کہتا، اس سے پہلے طوبیٰ جا چکی تھی۔نو بجنے میں ابھی چار۔پانچ منٹ باقی تھے۔اچانک جنید کی آواز سنائی دی۔
دادا۔ میں آجاؤں؟
او ہو۔ آئیے۔ ضرور آئیے۔
چلئے۔ ڈرامہ شروع ہونے جا رہا ہے۔ آپ سیریل تو دیکھتے نہیں۔مام نے کہا۔دادا کو بلا لاؤ۔
جنید نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچنا شروع کر دیا۔ میں جنید کے ساتھ جا کر پیچھے کے برامدے میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔بچے تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے تھے۔ میرے بیٹھنے پر وہ بھی اطمینان سے بیٹھ گئے۔
ڈرامہ شروع ہوا۔ بابر کی آرام گاہ۔ پاس بیٹھے حکیم صاحب۔دائیں جانب ہاتھ باندھے انتہائی شائستگی سے کھڑا شاہزادہ ہمایوں۔زندگی اور موت کے بیکراں فاصلے طے کرتی شمع کی دھندلی روشنی۔پھر چند لمحوں بعد شہنشاہ بابر کی مسکراہٹ کا کلوزاپ۔اور فلیش بیک۔آہستہ آہستہ کھلتے یادوں کے دریچے۔ہر چہار جانب سے پہاڑوں سے گھرے باغوں، جھرنوں ، ندیوں، نہروں کے مناظر۔پہاڑ کی ایک چوٹی پر شاہ کابل نامی قلع۔پہاڑ کے شہری کنارے کی جانب تین خوبصورت آبشار۔پاس میں ہی خواجہ شمس الدین جاں باز کا مزاراور خواجہ خضر کی قدم گاہ۔سب سے گزرتا ہوا کیمرا قلعے کے ایک باغیچے میں ٹھہر گیا۔بیک گراؤنڈ میں ساز کی نرم آوازوں کے ساتھ گیت کے میٹھے بول ماحول کو خوش گوار بنا رہے تھے۔
قلعے کی یہ فضا رندوں کے خالی جام بھر دے گی
میں کابل ہوں، مری خوشبو خمار آلود ہوتی ہے
باغ میں اپنی زوجہ ماہم بیگم کے ساتھ بابرکچھ فکر مند سا ٹہل رہا تھا۔’’کابل کو فتح کرنے میں جس بابر کومطلق دشواری نہیں ہوئی ہندوستان کی فتحیابی کا خواب اس کے لئے آج بھی ادھورا ہے۔‘‘ بابر کی آواز میں کچھ بے چینی تھی۔
’’گیتی ستانی ! آپ نے تو کبھی وہم و گمان میں بھی مایوسیوں کو داخل نہیں ہونے دیا۔ اور پھر آپ ہی نے تو مجھ سے فرمایا تھا کہ جس بادشاہ کے لئے اللّٰہ کی مہربانیاں مددگار ہوں،تمام دنیا کے بدمعاش مل کر ھی اسے خوف زدہ نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ہاں میں نے اس مضمون کے کچھ شعر تمھیں سنائے تھے۔‘‘
’’مجھے اشعار تو یاد نہیں رہتے لیکن جہاں تک خیال ہے آپ کے دوسرے شعر کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ اللّٰہ نے بادشاہ کی حیثیت سے آپ کو اپنی مدد کے جوشن اور رحمانیت کے تاج سے نوازا ہے۔‘‘
’’ بات تو آپ کی لفظ بہ لفظ درست ہے۔‘‘
’’ اور گیتی ستانی ! یاد کیجئے وہ گھڑی جب شاہزادہ کامران کی شادی کے بعد آپ نے شہر آرا باغ میں دو رکعت نماز ادا کر کے دعا کی تھی’’ربّ العزّت !تو کارساز ہے۔ اگر ہندوستان کی حکومت سے مجھے فیضیاب کرنا چاہتا ہے تو تحفے کی شکل میں ہندوستان سے پان کے بیڑے اور آم میرے پاس بھجوا دے۔‘‘
’’ہاں مجھے بخوبی یاد ہے کہ میری دعا قبول ہوئی تھی اور دولت خاں نے تحفے میں یہ تبرکات احمد خاں سربنی کے ہاتھوں میرے پاس بھجوائے تھے۔ ‘‘ بابر کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔
ماہم بیگم نے گیتی ستانی کو خوش دیکھ کر گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔’’اللّٰہ کو ہندوستان کی ظفریابی اگر منظور نہ ہوتی تو آپ قاسم بیگ کی اس درخواست پر ہرگز خوش نہ ہوتے کہ دلدار بیگم کے یہاں شاہزادے کی پیدائش ہندوستان کی فتح کے لئے فال نیک ہے ۔آپ نے اسے ایک مبارک خبر تسلیم کرتے ہوئے بیٹے کا نام ہندال رکھا تھا۔‘‘
بادشاہ نے خوش ہوکر ماہم بیگم کو سینے سے لگا لیا۔
منظر بدلتا ہے اور جنگ کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔کابل سے دس ہزار گھڑسواروں کے ساتھ فردوس مکانی ہندوستان فتح کرنے کے قصد سے نکل پڑے۔ دولت خاں کی کاوشوں سے لاہور تک پہنچتے پہنچتے ایک بھاری فوج ساتھ ہو گئی۔ پنجاب، سرہنداور حصار سبھی قبضے میں آتے چلے گئے۔پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودی کے ساتھ گھماسان کا رن پڑا۔ابراہیم کی فوج کے کئی امیر بھاگ کر بابر کی فوج میں شامل ہو گئے۔ حامد خان چار ہزار گھڑسواروں کے ساتھ فردوس مکانی کی مدد کے لئے پہنچ گیا۔ ابراہیم لودی انتہائی شجاعت کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا۔ دلاور خان نے اس کے مرنے کی خبر جب سلطان کو دی تو فردوس مکانی خود اس کے جنازے پر تشریف لے گئے۔ میت دھول اور خون میں لپٹی ہوئی تھی۔تاج کہیں پڑا تھا اور آفتابریر کہیں۔ فردوس مکانی نے فرمایا۔’’تیری شجاعت لائق تعریف و تحسین ہے۔‘‘ میت کو زربفت کے تھان میں لپیٹا گیا اور فردوس مکانی کے حکم سے پوری عزت کے ساتھ دفنایا گیا۔ جنگ کا میدان فردوس مکانی کی فتح کے نعروں سے گونج رہا تھا۔
کیمرا لوٹ کر شہنشاہ بابر کی آرام گاہ پر ٹھہر گیا تھا۔طبیب نے دواؤں سے مایوس ہو کر تسبیح پڑھنا شروع کر دی تھی۔شہنشاہ کے ہونٹوں پر ہلکی سی تھرتھراہٹ آئی ۔ بیہوشی ٹوٹ رہی تھی۔شہنشاہ نے آنکھیں کھولیں اور شاہزادہ ہمایوں کی طرف دیکھ کر پوچھا،’’تم کب آئے؟
’’فردوس مکانی نے جس وقت طلب فرمایا تھا۔‘‘ہمایوں نے حد ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے مختصر سا جواب دیا۔
’’ہاں میں تمھارا منتظر تھا۔ آج میں تمھیں اپنا ولی عہد مقرر کرتا ہوں۔ہندوستان کی سر زمین کا خاص خیال رکھنا۔اسے کابل کی خوشبو سے سنوارتے رہنا۔اور دیکھو اپنے بھائیوں سے کبی جنگ نہ کرنا۔اگر وہ کچھ غلط بھی ہوں تو درگزر کر دینا۔‘‘ آواز دھیمی پڑتی جا رہی تھی۔
ہوا کا ایک تیز جھونکا آرام گاھ میں داخل ہوا۔اور شمع گل ہو گئی۔ ٹی۔وی۔ اسکرین پر آہستہ آہستہ کچھ نام ابھر رہے تھے۔ انسپریشن تسمینہ گرگ اسکرپٹ صبا
ڈائرکشن صبا
اسکرین پر ابھرنے والے حروف مجھے بے ساختہ ماضی کے ان لمحوں کی جانب کھینچ لے گئے جہاں تسمینہ گرگ تھیں، صبا تھی، اور میں تھا۔میرے ذہن میں ایک کالی چینٹی رینگ گئی۔

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ***

Labels:

RANGON KE IMITZAJ KI TAKMIL KA FAREB /رنگوں کے امتزاج کی تکمیل کا فریب

رنگوں کے امتزاج کی تکمیل کا فریب
وجدان عشق ہے کسی تخئیل کا فریب

ان انگلیوں کے عکس حنائی سے دل تھا خوش
جذبات میں تھا جدت تمثیل کا فریب

شامل تھا یوں سرشت میں تجریدیت کا حسن
تجسیم فہم میں بھی تھا قندیل کا فریب

بن لیتی ہے زبان کی مبہم شکست و ریخت
معنی کے ارتکاز کی تحلیل کا فریب

افتاد طبع عشق کی جانب نہ تھی کبھی
سیمابیت بدوش تھا تحویل کا فریب

پر پیچ پہلوؤں کے کئی ماورا نکات
دیتے ہیں دل کو عشق کی تشکیل کا فریب

بڑھتا ہے جوش گریہ سے ویرانیوں کا شور
لیتا ہے کروٹیں کسی تاویل کا فریب
*

Labels:

GUMSHUDA BACHPAN / گم شدہ بچپن


ہمارا بچپن رہا ہو جیسا بھی
خوبصورت بہت تھا شاید
ہمارے چھوٹے سے شہر میں
کنکروں کی کچّی سڑک پہ کچھ لیمپ پوسٹ ہوتے تھے
جن کی مدّھم سی روشنی میں بھی
ہم کو دشواریوں کا احساس کچھ نہیں تھا
گھروں میں مٹّی کے چولھے تھے
جن کو صبح ہوتے ہی لیپ کرتازہ دم بنادیتی تھیں
سگھڑ عورتیں گھروں کی
کبھی ہمیں ناشتے میں ملتی تھی
روغنی میٹھی سرخ ٹکیا
کبھی تھی بیسن کی پیازآلود،ہلکی نمکین
کوئلے پر سکی ہوئی زرد زرد روٹی
ڈبو کے گھی کی کٹوریوں میں ہم اپنے لقمے
خوشی خوشی، بیٹھ کر وہیں چولھے سے ہی لگ کر
مزے سے کھاتے تھے۔
پڑھنے لکھنے کا شوق ایسا تھا
لالٹینوں میں یا چراغوں کی روشنی میں بھی
کوئی دقّت کبھی نہ آئی۔
سلگتی گرمی کی دوپہر میں
سناتی تھیں دادی جب کہانی
تو شاہزادوں کی زندگی کے کئی مسائل
ہمیں بھی الجھن میں ڈال دیتے تھے
اور پریوں کا تخت پر بیٹھ کر فلک سے زمیں پہ آنا
کچھ ایسا لگتا تھا
گد گدی سی دلوں میں ہوتی تھی
ہم بھی پریوں کے ساتھ خود کو

بلندیوں پر فلک کی محسوس کرنے لگتے تھے۔
لو بھری دوپہر کا احساس تک نہیں تھا۔
مگر اسی شہر میں گیا جب میں ایک مدّت پہ
شہر دفنایا جا چکا تھا۔
ہمارا بچپن بھی اس کے ہمراہ
گم شدہ تھا۔
کہیں بھی مدفن کا اس کے نام و نشاں نہیں تھا۔
************

Labels:

Saturday, June 19, 2010

شاخ سے پھل کی طرح پک کے ٹپک جائیں گے /shaakh se phal ki tarah pak ke tapak jayenge

شاخ سے پھل کی طرح پک کے ٹپک جائیں گے
اتنی تعریف کرو گے تو بہک جائیں گے

فرش پر رہتے ہوئے عرش پہ اڑتے ہو فضول
روک لو اپنے دماغوں کو بھٹک جائیں گے

کب ہمیں باہمی رشتوں پہ بھروسہ ہو گا
کب دلوں سے یہ سلگتے ہوئے شک جائیں گے

گھٹ کے رہ جائے گی سینوں میں صدائے فریاد
اب یہ نالے نہ کبھی تا بہ فلک جائیں گے

کیا خبر تھی کبھی حالات کے زخموں پہ نمک
وقت کے ہاتھ خموشی سے چھڑک جائیں گے
*********

Labels:

Saturday, May 8, 2010

سچ تو یہ ہے کہ ہوئے پل کے جواں جنت می /sach to ye hai ke huye pal ke jawaan jannat men

سچ تو یہ ہے کہ ہوئے پل کے جواں جنت میں
اب بھی مل جائیں گے پیروں کے نشاں جنت میں
اپنی خلقت ہی سے ہوتے ہیں فرشتے معصوم
ایک ہی طرز پہ جیتے ہیں وہاں جنت میں
میں کہ انسان ہوں رکھتا ہوں زمینوں کا خمیر
ٹکتے ہیں صاحب ادراک کہاں جنت میں
ہم نشینی ہے تری جنت و دوزخ سے الگ
کون سمجھے گا وہاں میری زباں جنت میں
حور و غلمان برابر تو نہیں ہو سکتے
یعنی ہے معاملہ سو د و زیاں جنت میں
تو یہاں رہتا ہے ہر لمحہ رگ جان کے قریب
کیوں میں تعمیر کروں اپنا مکاں جنت میں
********

Labels:

Thursday, April 22, 2010

سنا ہے نرغہ اعدا ہے ریگ زاروں میں

سنا ہے نرغہ اعدا ہے ریگ زاروں میں
یہ کون یکھ و تنہا ہے ریگ زاروں میں
چھپا ہے صحرانوردی میں ایک عالم عشق
برہنہ خوشبوے لیلا ہے ریگ زاروں میں
سکون بخش نہیں گھر کے یہ در و دیوار
ہمارا ذہن بھٹکتا ہے ریگ زاروں میں
وہ فتحیاب ہوا پھر بھی ہو گیا رسوا
وہ سر کتا کے بھی زندہ ہے ریگ زاروں میں
حیات موت کا لقمہ بنے تو کیسے بنے
کوئی تو ہے جو مسیحا ہے ریگ زاروں میں
سمندروں کا سفر کر رہا ہے مدّت سے
وہ انقلاب جو پیاسا ہے ریگ زاروں میں
وہ ایک دریا ہے کیا جانے ریگ گرم ہے کیا
اسے تو ہو کے نکلنا ہے ریگ زاروں میں
درخت ایسا ہے جس کی جڑیں فلک پر ہیں
مگر وہ پھولتا پھلتا ہے ریگ زاروں میں
*********

Labels: