Sunday, April 4, 2010

DOHE / ZAIDI JAFAR RAZA ; دوھے / زیدی جعفر رضا

اردو کہاں زبان ہے ، اردو ہے تهذیب

جس نے پیدا کر دئے،ایک سے ایک ادیب

لکھیں تو گلدستہ لگے، بولیں تو تلوار

بیری بھی ہیں میت بھی، قاضی جی ستار

شمس الرحمانی کونچ، شاعر اور ادیب

پہن کےاٹھلاتے پھرین، پھر بھی لگیں غریب

شہر یار کی شاعری، جاڑے کی ہے دھوپ

کومل کومل لمس ہے، دھلا دھلا سا روپ

حضرت ناصر کاظمی، سخن کے تھے سمراٹ

غالب کی تھیں سیڑھیاں، میر تقی کا گھاٹ

میاں غضنفر 'دویہ' ہیں، 'بانی' ہے انمول

'پانی' پانی مانگتا، 'کینچل'مانگےخول

سید اشرف کی کلا ، ایک جڑاؤ ہار

قیمت آنکیں جوہری، اور کریں بیوپار

اب نہ کوئی 'معصوم' ہے، اور نہ کوئی 'خلیل'

صورپھُونک کر کیا کریں، ادب کے اسرافیل

میاں چھتاری کاٹتے ، ناول کا پریدھان

لفظوں کا کمخواب ہے، اساطیر کا تھان

غالب کوپڑھنے لگے، نۓ سرے سے لوگ

جدیدیت مابعد کا ، دیکھو یہ سنجوگ

'ادب ساز' کو دیکھ کر، من میں آیا دھیان

سبھی برودھی جل موئیں، پکڑیں اپنے کان

چھپا سہارا عالمی ، سمٹا کل آفاق

ساری دنیا دیکھتی، الٹ الٹ اوراق

**********

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home